۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
حضرت آیت الله مظاهری

حوزہ/آیۃ اللہ مظاہری نے بیان کیا کہ سید الشہداء (ع) کی اہم خصوصیات میں سے ایک آپ علیہ السلام کی تربت ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،اصفہان/آیۃ اللہ العظمی حسین مظاہری نے ماہ محرم الحرام کی مناسبت سے اپنی سلسلہ وار گفتگو کے موقع پر حضرت سید الشہداء (ع) کی خصوصیات اور فضائل بیان کرتے ہوئے کہا کہ سید الشہداء (ع) کی اہم خصوصیات میں سے ایک آپ علیہ السلام کی تربت ہے۔

آیۃ اللہ مظاہری کے بیان کا مکمل متن مندرجہ ذیل ہے:

بِسْمِ اَللّٰهِ اَلرَّحْمٰنِ اَلرَّحِیمِ

«رَبِّ اشْرَحْ لِی صَدْرِی وَ یَسِّرْ لِی أَمْرِی وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِی یَفْقَهُوا قَوْلِی‌»
امام حسین علیہ السلام کے امتیازات اور خصوصیات میں سے ایک "جو کہ ایک اہم ترین خصوصیت ہے، وہ  تربتِ حسین(ع) ہے۔
اولا؛تربتِ امام حسین علیہ السلام پر سجدہ کرنے سے نماز کا ثواب ستر گنا بڑھ جاتا ہے،
اسی طرح اگر تسبیح تربت کی ہو تو تسبیح کا ثواب بھی ستر گنا زیادہ ہو جاتا ہے۔ [1] لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ہماری نمازیں ایسی نمازیں نہیں ہیں جو خدا کی بارگاہ میں قابل قبول ہوں۔ہم گناہگار ہیں ہے،ہم میں صفات رذیلہ(بری خصلتیں)ہیں،عام طور پر نماز ہمارے لئے لذت بخش نہیں ہے،نماز کو ہم اپنے اوپر ایک بوجھ سمجھتے ہیں، لہٰذا ہماری نمازیں ثواب سے خالی ہیں۔ ہمیں اپنی نمازوں کو خدا کی بارگاہ میں قابل قبول بنانا چاہئے۔جن چیزوں کے ذریعے ہماری نمازیں قبول ہوتی ہیں ان میں سے ایک تربتِ کربلا پر نماز پڑھنا ہے۔فقہاء کی کتابوں میں لکھا ہے اور روایت میں بھی آیا ہے کہ تربتِ کربلا پر نماز پڑھنے سے سات پردے کھلتے ہیں[2] اس کا اسلامی عرفان کے نقطۂ نظر سے اہم معنی ہے،یعنی یہ نماز وہاں تک پہنچ سکتی ہے جہاں پر خدا قبول کرتا ہے۔
روایت میں آیا ہے کہ نماز جاتی ہے اور یہ بہترین ہے،لیکن پہلے آسمان سے ہی آسمان کا دربان اسے واپس کرتا ہے۔ مثال کے طور پر،وہ کہتا ہے کہ اس نمازی نے غیبت کی ہے لہذا اس کی نماز اوپر نہیں جا سکتی،اسی طرح دوسرے آسمان سے بھی ، کبھی کبھی دربان اسے ساتویں آسمان پر لوٹاتا ہے تاکہ خدا تک پہنچ جائے۔اگر یہ نماز تربتِ کربلا پر پڑھی جانے والی ہو اور نماز کے بعد خاک شفا کی تسبیح سے ذکر تسبیح حضرت زہرا سلام اللہ علیہا پڑھا گیا ہو تو یہ نماز پہلے اور دوسرے آسمان سے ہی خدا تک پہنچ جاتی ہے اور خدا تربتِ امام حسین علیہ السلام کے ذریعے ہماری نمازوں کو قبول کرتا ہے۔

اگر نماز کے دوران رکوع و سجود اور نماز کے بعد محمد و آل محمد علیہم السلام پر درود بھیجیں گے تو وہ نماز بارگاہ الٰہی میں شرف قبولیت پائے گی۔
ہماری کتب ادعیہ اور روایات میں ہے کہ اگر آپ دعاؤں کو شرف قبولیت بخشنا چاہتے ہیں  تو دعا سے قبل اور بعد میں محمد و آل محمد علیہم پر درود بھیجیں تاکہ خداوند کریم اس درود کے توسط سے آپ کی دعاؤں کو مستجاب فرمائے[3]، لہذا،امام حسین کی تربت پر سجدہ کرنا اور اس کی تسبیح کرنا ہماری نمازوں کے لئے بہت مفید ہے اور کوئی بھی تربت اور  یہاں تک کہ پیغمبر اکرم(ص)کی تربت یا وہ سجدہ گاہ جسے مشہد مقدس کی مٹی سے بنایا جاتا ہے ممکن ہے کہ کوئی اس سے بعنوان تبرک اپنے پاس رکھے،لیکن جو تربت شفا اور اس پر سجدہ کرنا قابل قبول ہے،یہ امام حسین(ع) کی تربت کے ساتھ مختص ہے۔
ہمیں امام حسین علیہ السلام کی زمین اور کربلا کی سرزمین کے علاوہ کسی اور سرزمین کی مٹی کو تبرک کے عنوان سے نہیں اٹھانا چاہئے،لہذا بعض اوقات بقیع سے کچھ لوگ مٹی اٹھا دیتے ہیں جو کہ بعض جہتوں کی بنا پر غلط ہے،
 کیونکہ بقیع کی مٹی کے بارے میں کوئی سفارش نہیں ہوئی ہے،ایسا نہیں ہے کہ اس میں کوئی مسئلہ ہو،بلکہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں ہے،جو چیز نماز کی قبولیت کا ذریعہ ہے وہ امام حسین(ع) کی تربت ہے۔ یہ امام حسین(ع) کی خصوصیت اور فضیلت ہے،یعنی خدا نے یہ خصوصیت اور فضیلت،پیغمبر(ص)اور امیر المؤمنین(ع) اور آئمۂ اطہار علیہم السلام کو نہیں دیا ہے، بلکہ صرف امام حسین علیہ السلام اس فضیلت کا حامل امام ہیں۔
ثانیاً؛تربتِ سید الشہداء(ع) لاعلاج بیماریوں کا علاج ہے۔ اگر کوئی شخص تھوڑی سی "تربتِ ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام" کو عقیدہ اور خلوص کے ساتھ کھائے تو اس کی لاعلاج بیماریوں کو شفا عطا کرے گی۔ یہ تجربے سے ثابت شدہ بات ہے اور اس پر علماء کرام نے بہت اصرار کیا ہے۔روایت ہے کہ ایک شخص امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور کہا کہ اے فرزند رسول! ایک لاعلاج مرض میں مبتلا ہوں۔فرمایا: کیوں میرے جد امجد امام حسین(ع) کی تربت کو علاج کے لئے انتخاب نہیں کرتے ہو؟ تربتِ امام حسین(ع)کے بارے میں روایات کی روشنی میں بہت سفارش کی گئی ہے اور تجربے سے بھی ثابت ہوا ہے۔ [4] میں بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے امام حسین علیہ السلام کی تربت سے بہت ہی سخت بیماریوں سے نجات حاصل کی ہے۔تربتِ امام حسین(ع)کو علاج کا ذریعہ قرار دیں،میں نے کئی بار دیکھا ہے کہ لاعلاج مرض،امام حسین علیہ السلام کی تربت سے ٹھیک ہو گئے،لہذا، شفایابی کے لئے آپ کے پاس تربتِ کربلا ہونا چاہئے۔کیونکہ کربلا کی مٹی تربت ہے اور چار فرسخ کے اندر سے جہاں سے بھی اٹھائے تربت ہے اور یہ چیزیں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے شفا اور نمازوں کی قبولیت کے لئے ہیں،تو کبھی کبھی ایسا کریں۔ مثال کے طور پر عید الفطر کے دن، بزرگوں کے درمیان ایک رسم ہے کہ افطار سے پہلے تھوڑی تربت کھاتے ہیں۔ یقیناً بہت کم ، یا تو پانی میں ڈالیں یا باوضو ہو کر اپنے ہاتھوں کو تربت سے مس کریں اور زبان پر رکھ دیں اور یہ سال بھر کی شفا کے لئے اور بیمار نہ ہونے کے لئے بہت ہی مفید عمل ہے،بعض اوقات ہمیں تربتِ کو کھا لینا چاہئے۔تربتِ امام،امام پر رونا اور عزاداری سید الشہداء(ع)شفا کا ذریعہ ہے۔«شِفاءٌ لِما فِی‌ الصُّدُور»؛ ہمارا یہ ناپاک دل امام حسین(ع) پر گریہ کرنے سے شفا پاتا ہے۔

ہمیں ایام عزا میں کسب فیض کرنے کی ضرورت ہے یہ رونا اور گریہ و زاری بہت ہی مفید ہے۔ سماجی لاعلاج بیماریاں ان ماتموں سے شفا پاتی ہیں،ان ایام میں مصیبتیں دور ہو جاتیں ہیں لہٰذا اپنے ملک شہر اور خاندانوں کے لئے دعا کریں یہ گریہ و زاری بہت کار مند ہے۔امام حسین علیہ السلام ان فریادوں کو بہت پسند کرتے ہیں۔ امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ان فریادوں کو بہت پسند کرتے ہیں۔

وصلّی الله علی محمّد و آل محمّد

حوالہ جات:

[۱]. مکارم الاخلاق، ص ۳۰۲.

[۲]. مصباح المتهجد، ج ۲، ص ۷۳۴؛ رسالۀ توضیح المسائل، مسئله ۸۶۴.

[۳]. الکافی، ج ۲، ص ۴۹۴.

[۴]. ر. ک: کامل الزیارات، ص ۲۷۴ تا ۲۸۶.

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .